حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محرم الحرام اور سید الشہداءؑ کی عزاداری کے ایام کے قریب آتے ہی، ہر سال ایک موضوع بار بار سوال و اعتراض کی صورت میں سامنے آتا ہے، اور وہ ہے زیارت عاشورا اور دیگر دینی مراسم میں "لعن" یعنی بددعا یا نفرین۔ بعض لوگ نفسیاتی یا عرفانی زاویے سے دیکھتے ہوئے لعن کو منفی توانائی کا مظہر سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی لعن منفی جذبات پیدا کرتا ہے؟ یا یہ ایک دینی ضرورت اور ایمان کا حصہ ہے؟
اس اہم موضوع پر مزید وضاحت کے لیے ہم نے حوزہ علمیہ کے محقق اور دینی شبہات کے ماہر، حجت الاسلام مهدی سنجرانی سے گفتگو کی ہے، جو درج ذیل ہے:
سوال: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لعن کرنا منفی توانائی (نیگیٹو انرجی) پیدا کرتا ہے، تو پھر زیارت عاشورا میں لعن کیوں ہے؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحیم
اس سوال کے جواب میں چند نکات پر توجہ ضروری ہے:
❖ مثبت و منفی توانائی: حقیقت یا وہم؟
اصل بات یہ ہے کہ "انرجی" یا توانائی جیسا کہ طبیعیات (فزکس) میں بیان ہوتی ہے، ایک مسلم سائنسی حقیقت ہے۔ لیکن توانائی کو مثبت و منفی میں تقسیم کرنا یا ہر عمل کے ساتھ انرجی کو منسوب کرنا نہ دینی اعتبار سے درست ہے اور نہ سائنسی لحاظ سے۔ یہ مفروضہ زیادہ تر "قانونِ جذب" جیسے خیالات سے آیا ہے، جنہیں علمی طور پر خرافات میں شمار کیا جاتا ہے۔
لہٰذا لعن جیسے کسی عمل کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ منفی توانائی رکھتا ہے، بالکل بے بنیاد بات ہے۔
❖ اگر کوئی کہے کہ لعن کرنا دل کو بوجھل یا منفی احساس دیتا ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ لعن کرنے سے انسان کے اندر منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں، انسان کو برا محسوس ہوتا ہے، اس لیے ایسے کاموں سے بچنا چاہیے۔
مگر حقیقت میں "لعن" یعنی کسی کو خدا کی رحمت سے دور کرنا، ایک فطری اور دفاعی ردعمل ہے۔ یہ ردعمل ان لوگوں کے خلاف ہے جو کسی شخص، معاشرے یا دین و عقیدے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اگر انسان ظلم کے سامنے خاموش رہے یا اس کا ساتھ دے، تو وہ خود ظالم بن جاتا ہے یا ظلم کا غلام۔
لہٰذا ظلم کے خلاف بولنا، احتجاج کرنا اور مجرموں کو خدا کی رحمت سے دور سمجھنا ایک عقلمندانہ عمل ہے۔
❖ کیا لعن اخلاقی لحاظ سے غلط ہے؟
ظاہر ہے کہ عام مؤمنین یا عام افراد پر لعن کرنا روایات کے مطابق پسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ بڑے پیمانے پر ظلم کے مرتکب ہوئے، دین و معاشرے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، ان کے لیے لعن کرنا نہ صرف درست بلکہ نیکی اور پسندیدہ عمل ہے۔
قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ افراد پر لعن کی ہے۔ اسی طرح احادیث میں بے شمار گناہگاروں اور کافروں پر لعن کی گئی ہے۔
❖ لعن کے مثبت اثرات کیا ہیں؟
اگر لعن اپنے درست مقام پر ہو، تو اس کے مثبت نتائج نکلتے ہیں:
نفسیاتی لحاظ سے: برے لوگوں پر لعن کرنے سے انسان کے اندر اچھائی کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔
اخلاقی لحاظ سے: بروں سے دوری اختیار کرنا اور ان کے عمل کی مذمت کرنا، اخلاقی تربیت کا حصہ ہے۔
روحانی لحاظ سے: لعن کرنے سے دل کو سکون اور ظلم کے خلاف موقف لینے کی ہمت ملتی ہے۔
❖ دینی تعلیمات میں تولّا و تبرّا
اسلامی تعلیمات میں "تولّا" (یعنی اللہ اور اس کے نیک بندوں سے محبت) کے ساتھ "تبرّا" (یعنی اللہ کے دشمنوں سے نفرت) بھی ضروری ہے۔
قرآن اور احادیث دونوں میں ان دو اصولوں کو لازم اور مکمل ایمان کا جز قرار دیا گیا ہے۔
اسی بنیاد پر زیارت عاشورا میں جو لعن ہے، وہ ان لوگوں پر ہے جنہوں نے امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کو قتل کیا۔ یہ وہی دشمنانِ دین ہیں جن پر قرآن میں بھی لعن وارد ہوئی ہے۔
نتیجہ:
لہٰذا، اگر لعن صحیح جگہ، صحیح نیت اور دینی معیار کے مطابق ہو، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ نیکی، ثواب، اور انسان کی روحانی و اخلاقی ترقی کا سبب بنتی ہے۔
اور امام حسینؑ کے قاتلوں پر لعن کرنا یقیناً اس لعن کی سب سے اعلیٰ اور مقدس مثال ہے، کیونکہ امام حسینؑ وہ ہستی ہیں جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔









آپ کا تبصرہ